Header Ads Widget

سیرت الانبیاء۔ حضرت صالح علیہ السلام ۔ Hazrat Salih alaih e salam


بسم اللہ الرحمن الرحیم

سیرت الانبیاء (علیہم السلام) حضرت صالح علیہ السلام

* قوم ثمود کہاں آباد تھی۔

*حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کونسی تھی۔

* اونٹنی کا معجزہ۔

* قوم ثمود پر کون کون سا عذاب نازل ہوا۔

قوم ثمود کے مکانات


 حضرت صالح علیہ السلام قوم ثمود کے نبی تھے ۔ حضرت ہود علیہ السلام کی قوم عاد کے تباہ ہونے کے بعد ثمود کی اولاد عرب میں پہنچ گئی تھی۔ ان کا ملک شام اور حجاز کے درمیان تھا .... اورشہرتجاز سے ملا ہوا تھا ۔ ان کی وادی کا نام وادی قری تھا۔

 یہ لوگ بہت قد آور تھے ۔پہاڑوں کو تراش کر انہوں نے اپنے گھر بنالیے تھے ۔ پتھروں کو تراشنے کے ماہر تھے ۔ پتھر تراشتے تراشتے بت تراش بن بیٹھے ۔ پھر ان میں بت پرستی عام ہوگئی۔ جب یہ لوگ اللہ کی یاد سے غافل ہو گئے۔ تو اللہ رب العزت نے حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا ۔

( تفسیر عزیزی ) 

آپ کی شکل وصورت ان سب میں بہترتھی ..... اورنسب بھی اعلی تھا ۔

 اللہ تعالی نے سورہ اعراف میں ارشادفرمایا : ’ ’ 

اورقوم ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا ۔ انہوں نے اپنی قوم سے کہا۔ اے میری قوم ! اللہ کی بندگی کرو ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ‘ 


‘ صرف چند لوگ آپ پر ایمان لاۓ ۔ کم زور اور غریب لوگ تھے ۔ قوم کے بڑے سردار اور مال دارلوگ بت پرستی پر قائم رہے ۔ انہوں نے اللہ تعالی کی نعمتوں کا انکار کیا ۔ حضرت صالح علیہ السلام کا مذاق اڑایا ۔ وہ مذاق اڑاتے ہوۓ کہا کرتے تھے۔

 اگر ہم خدا کے بیج دین پر نہ ہوتے تو آج ہمیں یہ دھن دولت ، سرسبز و شاداب باغات اور بلند و بالا عالی شان محلات ، میوہ جات کی کثرت ، شیریں نہریں ، یہ سب کچھ کیوں حاصل ہوتا ....... یہ سب چیزیں ہمیں اس لیے ملی ہیں کہ ہم صحیح دین پر ہیں، دوسری طرف آپ خود دیکھیں ... جولوگ آپ کی پیروی کر رہے ہیں ، انہیں دیکھیں ۔ان کی تنگ حالی اور غربت کو دیکھیں اور بتائیں کہ خدا کے مقبول بندے کون ہیں۔ 

پھر ان لوگوں سے کہتے جو آپ پر ایمان لاۓ تھے : کیا ہمارے ہوتے ہوۓ اس پر نصیحت اتری ہے .... ( یعنی نبوت ملی ہے اور کیا تمہیں یقین ہے کہ صالح پروردگار کا رسول ہے۔ 

مسلمان انہیں جواب دیتے۔

 ” بے شک ! ہم ان کے لاۓ ہوۓ پیغام پر ایمان لا چکے ہیں ۔ “ 

تب وہ جواب دیتے”

 ہم تو اس پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ ان مغرور اور سرکش لوگوں نے حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت کو قبول نہیں کیا ۔

 آخر آپ کی قوم نے آپ سے کہا۔

اگر تم سچے ہو تو کوئی معجزہ دکھاو۔

  اس پر حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا : ” تمہاری خواہش کے مطابق میں تمہیں مجزہ دکھا دیتا ہوں ۔ لیکن اس کے بعد بھی اگر تم ایمان نہ لاۓ تو پھر تم پر اللہ کا عذاب آۓ گا۔ 

‘ ‘ اس پر انہوں نے کہا : ” ہم ہر سال فلاں تاریخ کو شہر سے باہر جاتے ہیں۔ اپنے ساتھ بتوں کو بھی اچھی پوشاک پہنا کر لے جاتے ہیں ۔ پھر ان سے اپنی حاجتیں مانگتے ہیں ۔ تو بھی ہمارے ساتھ چل ..... اپنے خدا سے اپنی مراد مانگ ...... پھر دیکھیں گے ۔۔۔۔ تیراخدا تجھے کیا دیتا ہے اور ہمارے خدا ہمیں کیا دیتے ہیں ۔ 

حضرت صالح علیہ السلام نے ان کی بات کو قبول کرلیا۔ آخر وہ دن آ گیا جب انہیں باہر نکلتا تھا۔ حضرت صالح علیہ السلام کے ساتھ وہ تھوڑے سے مسلمان تھے جو ان پر ایمان لاۓ تھے ۔ جب وہ عید گاہ پہنچ گئے۔تو انہوں نے اپنے بتوں کو نہایت اچھی طرح سجایا اور اپنے سامنے تختوں پر بٹھایا۔ پھر بڑے ادب سے ان سے اپنی حاجات مانگنے لگے۔ حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا : ” مانگنا ہی ہے تو ان بتوں سے کوئی انوکھی چیز مانگو؟

تا کہ ہم بھی دیکھیں تمہارے بت کیسی قدرت رکھتے ہیں ۔ وہ لوگ بتوں کے سامنے بڑی عاجزی سے مانگتے رہے لیکن کچھ بھی نہ ہوا ۔ آخر تنگ آ کر بیٹھ گئے ۔ 

اس پر حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا : ” اب تم کہو .... میں کیا کر کے دکھا دوں .... میں اپنے پروردگار سے دعا کروں گا اور وہ ہو جائے گا .... جوتم کہو گے ۔ ‘ ‘ ان سب نے اپنے بڑے کی طرف دیکھا اور ۔ اس سے بولے : ان سے کوئی ایسا مطالبہ کرنا چاہیے

 جو یہ پورا نہ کرسکیں ۔

سردار نے پہلے سوچا ، پھر بولا :    اگر آپ واقعی اللہ کے پیغمبر ہیں تو ہماری پہاڑی ' ' کا تہہ سے ایک ایسی اونٹنی نکال دیجیے جو دس مہینے کی گابھن ہو اور پوری طرح طاقت ور ہو ، پھر وہ ہمارے سامنے بچہ جنے ، وہ بچہ بھی اس کی شکل کا ہو، اس کا رنگ روپ بالکل اس جیسا ہو ۔ ‘ 

‘ حضرت صالح علیہ السلام نے ان کی بات سن کر فرمایا : 

 اگر میں اللہ کے حکم سے تم لوگوں کا (تمہارا) یہ مطالبہ پورا کر دوں تو تم سب مجھ پر اور میری دعوت (دین کی دعوت) قبول کر کے  ایمان لے آؤ گے ؟ 

“ ان سب نے اقرار کیا : ’ ’ ہاں ! ہم ایمان لے آئیں گے ۔ “ اب حضرت صالح علیہ السلام نے دو رکعت نماز ادا کی ۔ پھر اللہ تعالی سے یوں دعا کی : ’ ’ اے پروردگار ! آپ کے لیے تو کوئی کام مشکل نہیں۔ان کا مطالبہ پورا فرما دیں ۔ مسلمان بھی اس وقت آپ کے پاس کھڑے تھے ..... 

آپ کا ان الفاظ میں دعا کرتا تھا کہ اچانک پہاڑی پھٹی ، اس میں سے ایسی چلانے کی آواز آئی .... جیسی جانور بچہ جنتے وقت نکالتے ہیں ... اور انہوں نے پہاڑ میں سے بالکل ایسی ہی اونٹنی نکلتے دیکھی ۔۔۔ پہاڑ سے نکلتے ہی اونٹنی جنگل میں چلی  گی ..... کچھ ہی دیر بعد اس کا بچہ پیدا ہو گیا، وہ بچہ بھی اس کے رنگ روپ کا تھا ۔

 اس واقعے کا ذکر کرتے ہوۓ اللہ تعالی نے فرمایا :

 ” بے شک  اللہ تعالٰی کی طرف سے یہ واضح دلیل (حکم) آچکی ، یہ تمہارے لیے (تمھاری طرف) اللہ تعالٰی کے نام پر چھوڑی ہوئی اوٹنی ہے۔ تمہارے لیے ایک فیصلہ کن نشانی ہے ، بس اسے کھلا چھوڑ دو کہ (اللّٰہ تعالیٰ) خدا کی زمین میں جہاں چاہے چاے اسے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچاؤ ، ورنہ تمہیں دردناک عذاب آ پڑے گا ۔

 ( سورہ اعراف رکوع 10 )

 اس واقعے کو دیکھنے کے بعد ان سب نے کہا بے شک صالح کا معبود بڑی ہی قدرت کا مالک ہے ۔ اس پر ایمان لانا چاہیئے۔

 اس طرح ان کا سردار اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ اسلام لے آہا ۔

 اس نے حضرت صالح علیہ السلام سے اپنی خطاؤں کی معالی مانگی ۔ باقی لوگ اپنی سرکشی پر قائم رہے ۔ان  بدبختوں نے حضرت صالح علیہ السلام کو جادو گر قرار دیا ۔ اس پر حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے کہا : ” تم نے وعدہ خلافی کی ہے ۔ اب اللہ کے عذاب سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ تم اس اوٹنی اور اس کے بچے کو نہایت تعظیم سے رکھو۔اسے کسی قسم کی تکلیف نہ دو ۔ اس میں تمہاری بھلائی ہے ...... جب تک ی اونٹنی اور بچہ تم میں رہیں گے شاہد اللہ کا عذاب تم پر نہ آئے ...... اس کو چھوڑ دوتا کہ یہ کھاتی پھرے ، اسے برائی سے ہاتھ نہ لگانا

 ' ' وہ اونٹنی بہت قد آور تھی ...... اللہ کا معجزہ تھی ۔ اس کا بہت رعب تھا ۔ جس طرف جاتی ،باقی سب جانور اسے دیکھ کر بھاگ جاتے تھے ۔ پانی پر آتی سب کا پانی پی جاتی ۔ اس طرح لوگ بہت پریشان ہوئے ۔انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام سے شکایت کی

 : دیکھیں یہ اونٹنی تو بہت پانی پی جاتی ہے .... ہمارے لیے باقی نہیں بچتا ۔ '

  اس پر حضرت صالح علیہ السلام نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ان سے فرمایا : 

 ایک دن تم کنویں سے پانی لیا کرو ، دوسرے دن یہ پیا کرے گی ... اور جس دن یہ پانی پیے گی ، اس دن تم اس کا دودھ نکال لیا کرو ۔

 “ چنانچہ (یہ فیصلہ کیا) اس طرح کیا گیا  ایک دن اوٹنی پانی پی لیتی تھی.اس دن وہ لوگ اونٹنی کے  دودھ سے اپنے برتن بھر لیتے۔ (جبکہ) دوسرے دن وہ پانی لیتے ۔ کچھ یوم تک یہ سلسلہ اس طرح چلتا رہا .... لیکن پھر وہ اس اونٹنی سے تنگ آگئے ... ان کے تنگ آنے کی وجہ یھی کہ وہ جہاں سے گھاس چرتی ، وہاں گھاس ختم کر دیتی اور دوسرے جانوروں کے لیے گھاس نہ بچتی ۔ اب جن لوگوں نے جانور پالے ہوئے تھے ،

 انہیں یہ بات سخت ناگوارگزرتی ۔ اب وہ سوچنے لگے کہ کس طرح اس اونٹنی سے نجات حاصل کی جائے تا کہ ان کے جانور بھی فراغت سے چرسکیں ۔ 

دوسری طرف وہ عہد کر چکے تھے کہ اوٹنی سے کوئی برا سلوک نہیں کریں گے ۔ اس لیے وعدہ خلافی سے ڈرتے بھی تھے کہ کہیں اللہ کا عذاب نہ آ جاۓ ۔اس موقعے پر پھر شیطان آگے آیا ۔ اس نے کچھ  نوجوان جوان عورتوں کو اکسایا ۔ عورتوں نے اعلان کیا: 

جو شخص بھی اس اونٹنی کو قتل کرے گا .... ہم میں سے جس سے چاہے ، شادی کر سکے؟ “ اس اعلان کو سن کر دو آواره گرد نوجوان قدار بن سالت اور مصدع اونٹنی کو قتل کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ ان عورتوں کے بھی بہت سے جانور تھے۔اس لیے یہ دوسروں سے زیادہ پریشان ہیں ۔

 اس طرح یہ دونوں بدطنیت آدی اونٹنی کے قتل کی تدبیریں کرنے لگے۔ آخر ایک دن تیر اور تلواریں لیے اپنے کچھ ساتھیوں سمیت اونٹنی کے راستے میں بیٹھ گئے ۔ وہ ایک تنگ سی گلی  تھی۔اونٹنی چراگاہ سے واپس لوٹی ۔اسے آتے دیکھ کر مصدع نے اپنی کمان میں تیر چڑھایا اور انٹی کی پیشانی پر مارا ۔ اب سب نے مل کر شور مچاتے ہوۓ اوٹنی پر حملہ کردیا ، لیکن اونٹنی اس قدر طاقت ور تھی کہ اس نے کسی کو نزدیک نہ آنے دیا۔آخر قدار نے اس کے پیچھے جاکر وار کیا ۔ تلوار اس کی کونچوں پر ماری ، اونٹنی زمین پر گری۔ ساتھ ہی باقی لوگ تلواروں کے وار کرنے گے ۔۔۔ اور آخر کار انہوں نے اس اونٹنی کو قتل کر دیا۔ جسے ناقتہ اللہ کہا گیا تھا ۔

 اس سے پہلے ہی حضرت صالح علیہ السلام نے انہیں خبردار کیا تھا ۔ سورۃ الشمس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

" قوم ثمود نے اپنی سرکشی کے سبب جھٹلایا پس اللہ کے رسول نے ان سے کہہ دیا تھا کہ اونٹنی اللہ کی طرف سے معجرہ ہے اور اسے چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے ۔ پس انہوں نے پیغمبر ر کو جھٹلایا اور اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں ۔ پس ان کے پروردگار نے ان کے

Post a Comment

0 Comments